سلی sully

سلی (فلم)

15 جنوری 2009 کی یخ بستہ دوپہر کو ہونے والے ایک واقعہ سے متعلق ہے جب یو ایس ائیر ویز کی پرواز 1549 کے انجن سے پرندوں کا ایک جھنڈ ٹکرا جاتا ہے ا جس کے نتیجہ میں جہاز کے دونوں انجن کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پرواز پر عملے کے علاوہ 155 مسافر سوار تھے۔ جہاز کے کپتان سلن برگر سے کہا گیا کہ وہ نزدیک ترین دو میں سے کسی ایک ائرپورٹ پر لینڈنگ کر سکتا ہے لیکن کپتان نے جہاز کی صورت حال دیکھتے ہوئے اسے ناممکن خیال کیا اور جہاز کو نیویارک کے دریائے ہڈسن میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز نہ صرف بخیریت ہڈسن کے برفیلے پانیوں پر اتر گیا بلکہ اس عمل میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ سب 155 مسافر اور عملے کے تمام افراد بحفاظت وہاں سے نکال لیے گئے۔ ہر طرف اس واقعہ کی دھوم مچ گئی اور کپتان کی بے انتہا تحسین کی گئی۔ کپتان سلن برگر، "سلی"، کو ایک عوامی ہیرو کے ملک گیر حیثیت حاصل ہو گئی۔ تاہم نیشنل ٹرانسپورٹ و سیفٹی بورڈ اس واقعہ اور اس کی جزئیات کے متعلق مزید اطمینان کے لیے انکوائری کا حکم دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دریا میں اترنے کا فیصلہ واقعی آخری حل ہی تھا یا پائلٹ کی غلطی یا غلط اندازے سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ ماہرین ہوا بازی، کمپیوٹر ڈیٹا اور فلائٹ سیمولیشن ... غرض تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے۔ کپتان سے تیکھے سوال پوچھے جاتے ہیں ... کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ "ہیرو" کہیں نااہلی کا مرتکب ہی قرار نہ پا جائے۔ تحقیقات پورے شد ومد سے جاری رہتی ہیں، بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر پرواز کے ریکارڈ میں 35 سیکنڈ کا ایک ایسا وقفہ سامنے آتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کمپیوٹر سیمولیٹر کی آئیڈیل اور دباؤ سے پاک ماحول میں بھی دونوں مجوزہ ائرپورٹس میں سے کسی ایک پر بھی پہنچنا ممکن نہ تھا۔ تب وہ تحقیقات ختم کی جاتی ہیں۔ تحقیقات کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ ہڈسن پر ہر لینڈنگ تو اتنی خوش قسمت نہیں ہو سکتی۔... خوش قسمتی کی بجائے "محفوظ" کا راستہ چننا دراصل درست فیصلہ ہونا چاہیے۔۔

زکی کیانی

دو عظیم انسان

والش،پیکارڈ 
چیلنجر ڈیپ مہم (1960ء)

«« سب سے بڑے بحر کے فرش کو چھونے والے دو عظیم شخص »»

23 جنوری1960ء کی وہ ایک تاریخی صبح تھی جب 08:23پر ہزاروں لیٹر پٹرول بھرنے کے بعد ایک بہت بڑی آبدوز ٹری ئسٹ میں سوار ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ نے بحرالکاہل میں ماریانا ٹرنچ سے پانیوں کی گہرائی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ چند سو فٹ کے بعد اُن دونوں کو سورج کی روشنی مدھم ہوتی نظر آنے لگی۔ سائے کالے ہونے لگ پڑے۔ پانی کے دبائو کو چیرتی ہوئی عمق پیما آبدوز نے ایک شور کے ساتھ چیلنجر ڈیپ کے سفر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔آبدوز کے جس کیبن میں وہ دونوں بیٹھے تھے اُس کا سائز ایک بڑی گھریلو فریج کے برابر تھا ۔جسکا درجہ حرارت بھی اُس کے برابر۔ لہٰذا وہ یہ جانتے تھے کہ 9گھنٹے اِس میں گزرنے ہیں۔ آج تک12 افراد نے چاند پر قدم رکھا ہے ، ہزاروں نے اُونچائی کا پہاڑ مائونٹ ایورسٹ سر کیا لیکن گزشتہ 54سالوں میں صرف 3افراد ایسے ہیں جنہوں نے بحر(سمندر) کے فرش کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اُن میں سے والش اور پیکارڈ نامی اشخاص نے یہ حیرت انگیز کامیابی 23 جنوری 1960ء میں حاصل کی اور ٹائی ٹینک فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 52سال بعد 26مارچ 2012ء میں ۔ ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ: انسانی آنکھ کی خواہش تھی کہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی سمندری گہرائی اتنی ہی ہے جتنی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسرا اس گہرائی میں پہنچ کر سمندر کی تہہ کا کیا نظارہ ہو گا۔امریکہ کا’’پروجیکٹ نیکٹن‘‘ اس ہی خواہش کو پورا کرنے کی پیش رفت تھی جس کیلئے 28سالہ لیفٹیننٹ ڈان والش کو منتخب کیا گیا۔ڈان والش نے جب ٹری ئسٹ کوسان ڈیاگو شہر میں دیکھا تھا تو وہ مختلف حصوں میں اسطرح پڑی ہوئی تھی جیسے کسی بوائلر فیکٹری میں دھماکہ ہونے کے بعد اشیاء بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی ہوں۔لیکن پھرجب اُسکو منصوبے کے مطابق مزید حفاظتی اقدامات میں اضافے کے مطابق تیار کر لیا گیا تو37سالہ جیکوئس پیکارڈ کو بھی معاون افسر کے طور پر مہم کیلئے منتخب کر لیاگیا کیونکہ وہ ٹری ئسٹ کے بارے میں جانتے تھے۔ واش نے پیکارڈ سے پہلی ملاقات میں کہا کہ وہ جہاں راں (میرینر)ہے تو جواب میں پیکارڈ نے کہا کہ وہ ملاح ہے اور بعدازاں سفر کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ چیلنجر ڈیب کی سطح پر: 1000 فٹ،2000فٹ۔ پھر 2400 فٹ پر والش اور پیکارڈ نے جس چھوٹے سے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے کی روشنی ہلکی کردی تاکہ باہر کے نظارے کو واضح دیکھنے کی کوشش کی جاسکے۔13,000فٹ پر وہ ابیسل زون(پاتال یا کھائی۔ہندو دیو مالا کے مطابق زمین کے 7طبقوں میں سے نیچے کا طبق ہے۔جہاں ناگ رہتے ہیں) میں داخل ہوگئے جہاں اتنا گہرا اندھیرا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ وقت تھم گیا ہے۔31,000 فٹ نیچے پہنچے توٹری ئسٹ کی آواز تہہ سے ٹکرا کر گونج پیدا کرنے لگی۔32,400فٹ پر آبدوز کے 7انچ موٹے و مضبوط شیشے پرایک زور دار آواز کے ساتھ دراڑ پڑ ی تو اُس دھماکے نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔جس سے ایک خوفناک صورت ِحال پیدا ہوتی محسوس ہوئی ۔لیکن اگلے چند منٹوں میں معلوم ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔لہٰذا سفر جاری رکھا جائے منزل قریب تھی۔حوصلہ کیا اور ٹری ئسٹ کو مزید آگے بڑھایا تو تاریک ہیڈل زون (انتہائی گہری کھائی ) میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد آخر کار 35,800فٹ پر ڈان والش نے زمینی سطح پر رابطہ کر کے اطلاع دی کہ یہ ٹری ئسٹ ہے...ہم چیلنجر ڈیپ کی تہہ پر ہیں...اوور۔یعنی یہ فاصلہ زمین سے کم وبیش 7میل سمندری گہرائی میں جانے کا تھا جس کو بلیک ہول سے گزرنا بھی کہا جاتا ہے اور اُن سے پہلے آج تک اتنی گہرائی میں کوئی نہیں گیا تھا۔ ٹری ئسٹ کی انتہائی تیز روشنی میں سطح کا پانی خوبصورت اور چمکدارنظر آرہا تھا ۔ ایسا جیسے ایک دودھ کا پیالہ۔ پیکارڈ نے ایک فلیٹ فش(چپٹی مچھلی) کو دیکھا ۔انہوں نے عمق پیماآبدوز کو محتاط انداز میں چیلنجرڈیپ کے فرش پر ٹھہرایا۔پھر دونوں نے اپنی اس کامیابی پر ہاتھ ملایا اورایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں ۔ اس ہی دوران تہہ کی تلچھٹ کے بادل بھی بننا شروع ہو چکے تھے جو کم ہو نے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے تھے جسکی وجہ باہر کی دُنیا دیکھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔  والش اور پیکارڈ نے ان حالات میں فیصلہ کیا کہ رات ہونے سے پہلے واپس سمندر کی اوپر کی سطح پر پہنچا جائے۔ وہ ساڑھے4گھنٹے میں چیلنجر ڈیپ کی سطح پر پہنچے۔35,814فٹ کی گہرائی میں 20 منٹ ٹھہرے رہے اور ساڑھے 3 گھنٹے میں واپس اپنے مقام پر پہنچ گئے۔دونوں کو سخت سردی و تھکان محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ بھی سوچ رہے تھے کہ زندگی کے سب سے اہم لمحے گزر چکے ہیں ۔ کامیابی اور شہرت اُنکے قدم چُوم چکی ہے۔

تحریر : زکی کیانی

عقاب

عقاب eagle
عقاب کی بہت سی اقسام ہے ضروری نہیں سب میں مماثلت ہو یہ امریکہ ، یورپ ، ایشیا میں پایا جاتا ہے 60 سے زائد اقسام پائی جاتی ہے ۔

‏ ”‏بہترین حالات کے تحت سنہری عقاب (‏عقیلہ کیرساٹوس‏)‏ پونے دو میل کی بلندی سے خرگوش کی معمولی سی حرکت کو بھی دیکھ سکتا ہے،‏“‏ دی گینیز بُک آف اینیمل ریکارڈز بیان کرتی ہے۔‏ دیگر کا اندازہ ہے کہ عقاب اس سے بھی زیادہ دُور سے دیکھ سکتا ہے!‏
سنہری عقاب کی دو بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں جو سر کا بیشتر حصہ گھیرے ہوتی ہیں۔‏ بُک آف برٹش برڈز بیان کرتی ہے کہ سنہری عقاب کی آنکھیں،‏ ”‏درحقیقت کافی زیادہ بڑی ہوتی ہیں مگر وہ اُسکی پرواز کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔‏“‏

مزیدبرآں،‏ عقاب کی آنکھ میں روشنی حاصل کرنے والے خلیے ہماری نسبت پانچ گُنا زیادہ ہوتے ہیں،‏ بعض میں تو ہمارے 200000 خلیوں کے مقابلے میں فی مربع ملی‌میٹر 1000000 مخروطے ہوتے ہیں۔‏ عملاً ہر حساسہ نیورون سے جڑا ہوتا ہے۔‏ نتیجتاً عقاب کی عصب‌بصری میں جو آنکھ سے دماغ کو پیغام پہنچاتی ہے،‏ انسانوں کی نسبت دو گُنا زیادہ بافتے ہوتے ہیں۔‏ یہ مخلوق رنگ کی بھی خوب پہچان کر سکتی ہے!‏ یوں کہہ لیجئے کہ دیگر پرندوں کی طرح تمام شکاری پرندے طاقتور عدسوں سے لیس آنکھیں رکھتے ہیں جو ایک انچ کے فاصلے پر پڑی چیز سے نظر ہٹا کر فوری طور پر بہت دُور کی چیز پر نظر جما سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں اُنکی آنکھیں ہماری آنکھوں سے بہت بہتر ہیں۔‏

دن کی روشنی میں عقاب کی بصارت کئی گُنا زیادہ ہو جاتی ہے مگر رات کو اُلو اس خوبی سے استفادہ کرتے ہیں۔‏ رات کو اِن شکاری پرندوں کی آنکھوں میں روشنی کے حساس آلے اور بڑے بڑے عدسے نصب ہوتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ وہ رات کو ہماری نسبت دس گُنا زیادہ دیکھ سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ مکمل تاریکی کے دوران اُلو اپنے شکار کو تلاش کرنے کیلئے صرف اپنی سننے کی قوت پر انحصار کرتے ہیں۔‏

عقابوں کے گھونسلے عموماً بڑے درختوں پر یا اونچی چٹانوں پر ہوتے ہیں۔ اکثر اقسام دو انڈے دیتی ہیں۔ تاہم پہلے پیدا ہونے والے بچے عموماً دوسرے بچے کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے ہیں۔ عموماً مادہ چوزہ نر سے بڑی ہوتی ہے۔ والدین چھوٹے بچے کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔

زکی کیانی

میرے الفاظ

کچھ اپنے الفاظ آپکی نظر کرتا ہوں

غازی علم الدین شہید

غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قریبی مسجد سے حاصل کی اور پھر اپنے آبائی پیشےلکڑی کے کام میں کرنے لگے ۔

لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا۔
لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔ افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبد العزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ غازی عبد العزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو گارڈ دیے ۔ غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لیے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کارروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لیے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے" مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی زیر نگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی نے اس اپیل کو بھی رد کر دیا۔آپکی شہادت کے بعد آپ جسد خاکی کو ضبط کر کے نا معلوم مقام پر دفن کر دیا جس پر شدید احتجاج ہوا اور کچھ معاملات کے بعد کچھ مسلم رہنماؤں نے جسد خاکی واپس لے لیا وقت کے عینی شاہدین کے مطابق آپ دو ہفتوں بعد آپ سے خوشبو مہک رہی تھی چہرے پر جلال اور مسکراہٹ تھی
شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے جس میں تقریباً چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔ جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا" کاش! "یہ مقام مجھے نصیب ہوتا۔"اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی۔

لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔

تحریر : زکی کیانی

انجان لوگ

کچھ اپنے الفاظ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں اچھے لگے تو بتا دیجئے گا ،، شکریہ

برمودا تکون

برمودا تکون، بحر اوقیانوس میں واقع ایک مقام کو کہا جاتا ہے۔ اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی تکون بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت واقعات شامل ہیں۔ ان مافوق الفطرت داستانوں (یا واقعات) کی تفسیر کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کے لیے کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر مؤثر ہو جانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدکی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباًًًً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معما کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔ بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کے لیے ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصلات کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں ملا جہاں قطب نما کی سوئی کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے میں بیان کیے جاتے ہیں
لیری کش نے اپنی مشہور کتاب "The Bermuda Triangle Mystery: Solved" میں وضاحت کی ہے کہ سمندر کا یہ علاقہ اکثر طوفانوں کی زد میں رہتا ہے اور یہاں گلف کی تیز سمندری رو اور کیربئین اٹلانٹک طوفان کی وجہ سے موسمی حالات اکثر خطرناک رہتے ہیں اور سمندر کی تہہ بھی مسلسل ردوبدل کے عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ ان تمام موسمی و سمندری حالات کی وجہ سے یہاں حادثات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں لیکن ایسا کئی اور سمندری علاقوں میں بھی ہوتا ہے لہٰذا یہ کوئی پراسرار جگہ، شیطانی مثلث یا خلائی مخلوق کی لیبارٹری نہیں ہے بلکہ معمول سے زیادہ تیز و تند اور غیر مستحکم موسمی حالات والا علاقہ ہے۔

تحریر : زکی کیانی

leukaemia لیو کیمیا


لیو کیمیا leukaemia

اکیسویں صدی میں انسانیت جن مختلف جان لیوا اور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے لیوکیمیا ان میں سے ایک ہے۔ لیوکیمیا ایک مہلک clonal سے hematopoietic سٹیم سیل کی خرابی کا ایک جزو ہے۔ خیال رہے کہ اس مرض میں سفیدذرات خون (WBC) اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ سرخ ذرات خون انتہائی کم رہ جاتے ہیں سفیدذرات خون کے بڑھنے سے جسم کارنگ پھیکا سفیدی مائل ہوجاتا ہے، ناخن بالکل سفید دودھ کی طرح ہو جاتے ہیں ۔
خون کے سفیدذرات اس کیلوس کو کہتے ہیں جو غذا کے ہضم ہونے کے بعدعروق مارسایقا (غددجاذبہ) کے ذریعے جگروخون میں داخل ہوتاہے چونکہ عروق ماساریقا اور غددجاذبہ و طحال ولبلبہ وغیرہ ایک ہی مزاج کے اعضاء ہیں اس لئے محققین نے ان سے سفید ذرات خون کا بننا تسلیم کیا ہے۔

لیکیومیا کے جراثیم جلدی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ تمباکو اور سگریٹ نوشی کرنے والے لوگ اس مرض میں جلد مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں کا قوت مدافعت کا نظام کمزور ہو وہ اس مرض کے جراثیم سے لڑنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ وہ افراد جو شعاؤں (ایکسرے وغیرہ) کا کام کرتے ہیں یا فیکٹری میں کام کرنے والے افراد خاص طور پر جو بینزین کیمیکل کا کام کرتے ہیں ان لوگوں کو لیکیو میا ہو سکتا ہے۔  اب آئیے اس کی علا مات پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں ۔ تاکہ جن لوگو کو ان علا مات میں سے کوئی علامت نظرآئے اسے فوراً کسی قابل اور ماہر فزیشین سے رابطہ کرنا چاہئے۔ وائرس انفیکشن لیوکیمیا کے اہم وجوہات میں سے ایک ہے، زیادہ عام وائرس کی قسمretrovirus c type ہے جو جسم میں leukocytosis کا سبب بنتا ہے اوراس کی وجہ سے بخار، خون کی کمی، ہڈیوں اور جوڑوں کا درد، دانت میں درد، pericardial بہاؤ کے ساتھ جسم کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ بھوک نہ لگنا۔ وزن کا تیزی سے کم ہونا۔ سر چکرانا،عضلات میں درد۔ متلی، قے اور الٹی۔ آنتوں کے قدرتی فعل میں فرق، لگا تار قبض یا دست رہنا۔ لگا تار غیر فطری خون کا ڈسچارج۔ بہت زیادہ تھکان۔ انفیکشن کا صحیح نہ ہونا۔ بار بار بخار کا آنا۔
جگر اور تلی کا بڑھ جانا۔ رک رک کر سانس کا آنا۔ اینیمیا (خون کی کمی)
اب ہم اس کے علاج کی جانب آپ کی رہنمائی کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں ۔ اس مرض میں مریض کو سرخ خلیے اور پلیٹلٹس کی ڈرپس چڑھائی جاتی ہیں۔ انفیکشن دور کرنے کے لئے اینٹی بایو ٹکس دی جاتی ہیں۔ مریض کا یورک ایسڈ ٹھیک ہو تو اس صورت میں تھیراپی کی جاتی ہے۔ ان تھیراپیز میں بائیو لوجیکل تھیراپی، کیمو تھیراپی، ریڈئیشن تھیراپی اوررمشن انڈکشن شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ہڈیوں کا گودا تبدیل کرنا (بون میرو ٹرانس پلانٹ)اور اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بھی اس کے علاج میں شامل ہیں۔
چونکہ لیوکیمیا ایک کینسر ہے اس لئے انتہائی مہلک بھی ہے جس میں مشہور زمانہ ریسلر رومن رائن مبتلا ہو گیا جسکی وجہ سے انکو ریسنلگ چھوڑنا پڑی ۔

تحریر: زکی کیانی

بھیڑیا

بھیڑیا، ایک گوشت خور جانور ہے جو ممالیہ درجہ سے تعلق رکھتا ہے
بالغ یا جوان بھیڑیے کی لمبائی چھ سے سات فٹ تک ہوتی ہے جس میں دم کی لمبائی شامل ہے۔ ان کا عموماً وزن تیرہ سے اناسی کلو گرام تک ہو سکتا ہے جو مختلف اقسام میں جدا ہے۔ بھیڑیے کا قد عموماً بیس سے اڑتیس انچ تک ہوتا ہے اور ان کے جسم پر گھنی پشم ہوتی ہے جو جلد سے اوپر دو تہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اوپری تہ گرد جبکہ نچلی پانی سے جلد کو بچاتی ہے۔ اس پشم کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے جس میں خاکستر، سفید، سرخ، بھورا اور سیاہ رنگ کی آمیزش ہوتی ہے
بھیڑیے عام طور پر گرہوں کی شکل میں رہتے ہیں اور انھیں “گروہ“ کہا جاتا ہے۔ ایک گروہ میں عام طور پر ایک ہی خاندان کے بھیڑیے ہوتے ہیں جن میں بھیڑیے اور ان کی اولاد ہوتی ہے۔ ایک گروہ میں زیادہ سے زیادہ پندرہ بھیڑیے ہوتے ہیں۔ گروہ کے سربراہ نر کو سائنسی اصطلاح میں “الفا نر“ یا نر اول اور مادہ کو “الفا مادہ“ یا مادہ اول کہا جاتا ہے۔ ہر گروہ کے علاقے کا تعین بُو اور چیخنے سے کیا جاتا ہے اور علاقہ میں نئے حملہ آوروں یا مداخلت کاروں کے خلاف شدید مزاحمت کی جاتی ہے۔ چھوٹے بھیڑیوں کو سائنسی اصطلاح میں پلے کہا جاتا ہے اور مادہ ایک وقت میں پانچ یا چھ پلوں کو جنم دیتی ہے۔
بھیڑیا واحد درندہ ھے جو اتنی طاقت رکھتا ھے کہ اس کی تیز ترین آنکھیں کسی جن کا تعاقب کرکے پھرتی سے چھلانگ لگائے اور اسے مار ڈالے
* بھیڑیا کبھی مردار نہیں کھاتا اور یہ جنگل کے بادشاہ کا طریقہ ھے اور نہ ھی بھیڑیا محرم مؤنث پر جھانکتا ھے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف کہ
* اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں
* بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ھوتا ھے کہ اس کے علاوہ کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا اسی طرح مؤنث بھی بھیڑئیے کے ساتھ وفاداری کرتی ھے
* بھیڑیا اپنی اولاد کو پہچانتا ھے کیونکہ ان کی ماں اور باپ ایک ھی ھوتے ھیں
* جوڑے میں سے اگر کوئی مرجائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ کھڑا افسوس کرتا ھے
* بھیڑییے کو عربی میں ابن البار کہا جاتا ھے ، یعنی نیک بیٹا کہ والدین جب بوڑھے ھوجاتے ھیں تو ان کے لئے شکار کرتا ھے اور ان کا پورا خیال رکھتا ھے
* بھیڑیا کی بہترین صفات میں بہادری ، وفاداری ، خودداری ، اور والدین سے حسن سلوک مشھور ھیں
اوپر تصویر پر ذرا غور کریں
1- سب سے آگے تین چلنے والے بوڑھے اور بیمار بھیڑییے ھیں
2- دوسرے پانچ منتخب طاقتور جو بوڑھے ، بیمار بھیڑیوں کے ساتھ ( فرسٹ ایڈ )تعاون کرنے والے ھیں
3- ان کے پیچھے طاقتور ، دشمن کے حملے کا دفاع کرنے والے چاک و چوبند بھیڑییے ھیں
4- درمیان میں باقی عام بھیڑییے ھیں
5- سب کے آخر میں بھیڑیوں کا مستعد قائد ھے جو سب کی نگرانی کررھا ھے کہ کوئی اپنی ڈیوٹی سے غافل تو نہیں اور ھر طرف سے دشمن کا خیال رکھتا ھے اس کو عربی میں ( الف ) کہتے ہیں کہ اکیلا ھزار کے برابر
ایک سبق جو ھمارے لیے باعث عبرت ھے
کہ بھیڑییے بھی اپنا بہترین خیرخواہ قائد منتخب کرتے ہیں


چی گویرا

چی گویرا ( Ernesto Guevara) ارجنٹائن کا انقلابی لیڈر تھا۔ چی عرفیت ہے۔ وہ 14 مئی، 1928ء کو ارجنٹائن میں پیدا ہوا۔
بچپن سے دمہ کا مریض ہونے کے باوجود وہ ایک بہترین ایتھلیٹ تھا اور کتابوں کا اتنا شوقین کے 3000 کتابیں پڑھ ڈالی
چی بنیادی طور پر میڈیکل کا طالب علم تھا، تعلیمی کیرئر کے دوران ہی اس کے اندر سیاحت کا شوق پیدا ہوا اور 1950ء سے لیکر 1953ء تک اس نے جنوبی امریکہ کا تین دفعہ سفر کیا
پھر دوسرا سفر اس نے 1951ء میں موٹر سائیکل پر طے کیا۔ جو تقریباً دگنا لمبا یعنی8000 کلومیٹر تھا۔ تیسرا سفر اس نے 1953ء میں کیا– تینوں بار اس نے متعدد ممالک جیسے چلی، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا، وینیزویلا، پانامہ، برازیل، بولیویا اور کیوبا کراس کیے۔
اس سفر کے دوران چی کے مشاہدے میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا، اس نے بہت سے چھوٹے شہر،قصبے،گاؤں دیکھے جن کی حالت ِزار بیان کرنے کے قابل نہ تھی۔ جنوبی امریکا اس وقت کٹھ پتلی حکمرانوں کے زیر تسلط ہے اور ان کی آڑ میں سرمایہ داری نظام یہاں جڑ پکڑ رہا ہے، جس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ امریکا بہادر خود ہے۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ دونوں یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا سرپرست امریکا کبھی بھی غریبوں کے دوست نہیں ہوسکتے اور ان کی تسلط سے اس خطے کو آزاد کرانے کے لیے اسے اپنی تعلیم چھوڑ کر انقلابی راہ اپنانی پڑے گی
چی 1954ء میں میکسیکو چلاگیا،  1955ء میں اس کی ملاقات کیوبا کے نئے ابھرتے انقلابی لیڈر فیدل کاسترو کے بھائی رائول کاسترو سے ہوئی، جس نے اس کی سوچ سے متاثر ہوکر بعد میں اسے اپنے بھائی سے ملوایا۔ اس ملاقات کو اگر چی کی زندگی کا نقطہ آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، دونوں نے متضاد شخصیت ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو کافی متاثر کیا اور چی نے کاسترو کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ چی کا لقب بھی کاسترو نے دیا جس کا مطلب دوست تھا
دونوں کا نشانہ امریکی نواز کیوبن حکمران باتستاتھا، جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا، یہ تحریک تقریباً چار سال چلی، اس دوران چی نے باقاعدہ گوریلا ٹریننگ بھی لی اور اس میں بہت کامیاب رہا۔ کاسترو بھی اس کی قابلیت اور ڈسپلن سے بہت متاثر تھا، یہی وجہ تھی کہ کچھ ہی عرصے میں اسے اپنا دست راست بنالیا۔جب کٹھ پتلی حکومت ناکام ہوئی
انقلابیوں کی حکومت آئی تو انھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، چی کوصنعت اور خزانے کی وزارتیں دیں گئیں، مگر انقلابی جدوجہد کے مقابلے میں اصلاحات کا کام نہایت دشوار ثابت ہوا، خصوصاً جب امریکا بہادر ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا تھا اور طرح طرح کی معاشی پابندیاں عائد کر رہا تھا،اس دوران چی نے کافی کوشش کی، کئی ملکوں کے دورے کیے اور بڑے بڑے مگرمچھوں سے زمینیں چھین کر غریبوں میں تقسیم کیں، مگر ان اصلاحات کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے اور اسے پس پردہ جانا پڑا۔
7 اکتوبر، 1967ء کی صبح ایک مقامی مخبر نے قریبی فوجی اڈے پر چی اور اس کے ساتھیوں کے ٹھکانے کی اطلاع دی، جس پر فوج حرکت میں آگئی،امریکن سی آئی اے جو اسکی گرفتاری کے لئے سرگرم تھی ہر طرح سے مدد کی اور بالآخر اسکو پکڑ لیا گیا ۔ اس کو نامعلوم مقام پر تفتیش کے لئے منتقل کیا گیا ایک زخمی فوجی کے مطابق اس نے کسی قسم کے سوال پر کبھی منہ نہیں کھولا آفیسر آخر تنگ آگئے اور صدر کو رپورٹ دے دی امریکہ چاہتا تھا کہ اسکو پانا منتقل کیا جائے تاکہ مزید پوچھ گوچھ ہو پر اس کو صدر نے موت کا حکم دیا اس کے اپنی حکومت بچ سکے اور کئی بھاگ نہ جائے
وہ ایک آسان موت کی توقع کر رہا تھا، مگر شرابی جلاد نے پلان کے مطابق آڑی ترچھی 9گولیاں برسائیں اور اسے بڑی اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔
 کیچی کو آج مرے 40 سال ہوئے لیکن وہ انقلابی لیڈر کے طور جانا جاتا ہے جہاں کئی بھی انقلابی تحریک ہو وہاں اس جو تصویر لگائی جاتی جیسے پچھلے دنوں سوڈان میں کیا گیا

تحریر : زکی کیانی

ocean of knowledge

Result of KSA Vs Houthis Conflicts

Result of KSA Vs Houthis Conflict The conflict between the Houthi rebels and Saudi Arabia in Yemen has been characterized by a complex web o...