دو عظیم انسان

والش،پیکارڈ 
چیلنجر ڈیپ مہم (1960ء)

«« سب سے بڑے بحر کے فرش کو چھونے والے دو عظیم شخص »»

23 جنوری1960ء کی وہ ایک تاریخی صبح تھی جب 08:23پر ہزاروں لیٹر پٹرول بھرنے کے بعد ایک بہت بڑی آبدوز ٹری ئسٹ میں سوار ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ نے بحرالکاہل میں ماریانا ٹرنچ سے پانیوں کی گہرائی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ چند سو فٹ کے بعد اُن دونوں کو سورج کی روشنی مدھم ہوتی نظر آنے لگی۔ سائے کالے ہونے لگ پڑے۔ پانی کے دبائو کو چیرتی ہوئی عمق پیما آبدوز نے ایک شور کے ساتھ چیلنجر ڈیپ کے سفر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔آبدوز کے جس کیبن میں وہ دونوں بیٹھے تھے اُس کا سائز ایک بڑی گھریلو فریج کے برابر تھا ۔جسکا درجہ حرارت بھی اُس کے برابر۔ لہٰذا وہ یہ جانتے تھے کہ 9گھنٹے اِس میں گزرنے ہیں۔ آج تک12 افراد نے چاند پر قدم رکھا ہے ، ہزاروں نے اُونچائی کا پہاڑ مائونٹ ایورسٹ سر کیا لیکن گزشتہ 54سالوں میں صرف 3افراد ایسے ہیں جنہوں نے بحر(سمندر) کے فرش کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اُن میں سے والش اور پیکارڈ نامی اشخاص نے یہ حیرت انگیز کامیابی 23 جنوری 1960ء میں حاصل کی اور ٹائی ٹینک فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 52سال بعد 26مارچ 2012ء میں ۔ ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ: انسانی آنکھ کی خواہش تھی کہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی سمندری گہرائی اتنی ہی ہے جتنی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسرا اس گہرائی میں پہنچ کر سمندر کی تہہ کا کیا نظارہ ہو گا۔امریکہ کا’’پروجیکٹ نیکٹن‘‘ اس ہی خواہش کو پورا کرنے کی پیش رفت تھی جس کیلئے 28سالہ لیفٹیننٹ ڈان والش کو منتخب کیا گیا۔ڈان والش نے جب ٹری ئسٹ کوسان ڈیاگو شہر میں دیکھا تھا تو وہ مختلف حصوں میں اسطرح پڑی ہوئی تھی جیسے کسی بوائلر فیکٹری میں دھماکہ ہونے کے بعد اشیاء بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی ہوں۔لیکن پھرجب اُسکو منصوبے کے مطابق مزید حفاظتی اقدامات میں اضافے کے مطابق تیار کر لیا گیا تو37سالہ جیکوئس پیکارڈ کو بھی معاون افسر کے طور پر مہم کیلئے منتخب کر لیاگیا کیونکہ وہ ٹری ئسٹ کے بارے میں جانتے تھے۔ واش نے پیکارڈ سے پہلی ملاقات میں کہا کہ وہ جہاں راں (میرینر)ہے تو جواب میں پیکارڈ نے کہا کہ وہ ملاح ہے اور بعدازاں سفر کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ چیلنجر ڈیب کی سطح پر: 1000 فٹ،2000فٹ۔ پھر 2400 فٹ پر والش اور پیکارڈ نے جس چھوٹے سے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے کی روشنی ہلکی کردی تاکہ باہر کے نظارے کو واضح دیکھنے کی کوشش کی جاسکے۔13,000فٹ پر وہ ابیسل زون(پاتال یا کھائی۔ہندو دیو مالا کے مطابق زمین کے 7طبقوں میں سے نیچے کا طبق ہے۔جہاں ناگ رہتے ہیں) میں داخل ہوگئے جہاں اتنا گہرا اندھیرا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ وقت تھم گیا ہے۔31,000 فٹ نیچے پہنچے توٹری ئسٹ کی آواز تہہ سے ٹکرا کر گونج پیدا کرنے لگی۔32,400فٹ پر آبدوز کے 7انچ موٹے و مضبوط شیشے پرایک زور دار آواز کے ساتھ دراڑ پڑ ی تو اُس دھماکے نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔جس سے ایک خوفناک صورت ِحال پیدا ہوتی محسوس ہوئی ۔لیکن اگلے چند منٹوں میں معلوم ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔لہٰذا سفر جاری رکھا جائے منزل قریب تھی۔حوصلہ کیا اور ٹری ئسٹ کو مزید آگے بڑھایا تو تاریک ہیڈل زون (انتہائی گہری کھائی ) میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد آخر کار 35,800فٹ پر ڈان والش نے زمینی سطح پر رابطہ کر کے اطلاع دی کہ یہ ٹری ئسٹ ہے...ہم چیلنجر ڈیپ کی تہہ پر ہیں...اوور۔یعنی یہ فاصلہ زمین سے کم وبیش 7میل سمندری گہرائی میں جانے کا تھا جس کو بلیک ہول سے گزرنا بھی کہا جاتا ہے اور اُن سے پہلے آج تک اتنی گہرائی میں کوئی نہیں گیا تھا۔ ٹری ئسٹ کی انتہائی تیز روشنی میں سطح کا پانی خوبصورت اور چمکدارنظر آرہا تھا ۔ ایسا جیسے ایک دودھ کا پیالہ۔ پیکارڈ نے ایک فلیٹ فش(چپٹی مچھلی) کو دیکھا ۔انہوں نے عمق پیماآبدوز کو محتاط انداز میں چیلنجرڈیپ کے فرش پر ٹھہرایا۔پھر دونوں نے اپنی اس کامیابی پر ہاتھ ملایا اورایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں ۔ اس ہی دوران تہہ کی تلچھٹ کے بادل بھی بننا شروع ہو چکے تھے جو کم ہو نے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے تھے جسکی وجہ باہر کی دُنیا دیکھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔  والش اور پیکارڈ نے ان حالات میں فیصلہ کیا کہ رات ہونے سے پہلے واپس سمندر کی اوپر کی سطح پر پہنچا جائے۔ وہ ساڑھے4گھنٹے میں چیلنجر ڈیپ کی سطح پر پہنچے۔35,814فٹ کی گہرائی میں 20 منٹ ٹھہرے رہے اور ساڑھے 3 گھنٹے میں واپس اپنے مقام پر پہنچ گئے۔دونوں کو سخت سردی و تھکان محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ بھی سوچ رہے تھے کہ زندگی کے سب سے اہم لمحے گزر چکے ہیں ۔ کامیابی اور شہرت اُنکے قدم چُوم چکی ہے۔

تحریر : زکی کیانی

No comments:

Post a Comment

ocean of knowledge

Understanding Climate Change and Effective Strategies to Tackle It

Introduction Climate change is one of the most pressing global challenges of our time. As greenhouse gas emissions rise, the planet's te...