Showing posts with label محافظ ناموسِ رسالت کا. Show all posts
Showing posts with label محافظ ناموسِ رسالت کا. Show all posts

غازی علم الدین شہید

غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قریبی مسجد سے حاصل کی اور پھر اپنے آبائی پیشےلکڑی کے کام میں کرنے لگے ۔

لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا۔
لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔ افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبد العزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ غازی عبد العزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو گارڈ دیے ۔ غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لیے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کارروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لیے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے" مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی زیر نگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی نے اس اپیل کو بھی رد کر دیا۔آپکی شہادت کے بعد آپ جسد خاکی کو ضبط کر کے نا معلوم مقام پر دفن کر دیا جس پر شدید احتجاج ہوا اور کچھ معاملات کے بعد کچھ مسلم رہنماؤں نے جسد خاکی واپس لے لیا وقت کے عینی شاہدین کے مطابق آپ دو ہفتوں بعد آپ سے خوشبو مہک رہی تھی چہرے پر جلال اور مسکراہٹ تھی
شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے جس میں تقریباً چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔ جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا" کاش! "یہ مقام مجھے نصیب ہوتا۔"اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی۔

لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔

تحریر : زکی کیانی

ocean of knowledge

Result of KSA Vs Houthis Conflicts

Result of KSA Vs Houthis Conflict The conflict between the Houthi rebels and Saudi Arabia in Yemen has been characterized by a complex web o...