Leukaemia

 Leukaemia



 Leukemia is one of the various life-threatening and fatal diseases that humanity has suffered in the 21st century.  Leukemia is a component of malignant clonal hematopoietic stem cell dysfunction.  It should be noted that white blood cells (WBCs) increase so much that red blood cells are very low in this disease.
 The white blood cells call the calves that enter the jugular blood through the digestive tract after the digestion of the food, since the spleen massacrea and the gallbladder are the same organs, so the researchers used white blood from them.  To be accepted.

 Leukemia germs take effect quickly.  Smokers and smokers often get the disease.  People with weak immune systems fail to fight the germs of the disease.  Those who work in the fields (X-rays, etc.) or those who work in the factory, especially those who work for benzene chemicals, may have leukemia.  Now let's shed some light on this.  People who see any of these signs should immediately contact a competent physician.  Virus infection is one of the leading causes of leukemia, the most common virus type is retrovirus c type that causes leukocytosis in the body and it causes fever, anemia, bones and joints pain, toothache, pericardial flow.  Along with destroying the body.  Not hunger  Weight loss fast.  Dizziness, muscle aches  Nausea, vomiting and vomiting.  Differences in natural functioning of the intestines, constipation or diarrhea.  Unnatural blood discharge.  Very tired  The infection may not be correct.  Frequent fever.
 Increased liver and spleen.  Shortness of breath  Anemia (anemia)
 We now consider it appropriate to guide you to its treatment.  In this disease the patient is subjected to red cells and platelets drips.  Antibiotics are given to prevent infection.  In this case, therapy is done if the patient's uric acid is OK.  These therapies include biological therapy, chemotherapy, radiation therapy and induction induction.  In addition, bone marrow transplantation (bone marrow transfer plant) and stem cell transplant are also involved in the treatment.
 Since leukemia is a cancer, it is also extremely deadly, in which the famous racer Roman Rhine suffered and had to leave Wisling.

 Written by: Zaki Kiani

 

 

Sully

Sully (film)

 The iceberg of January 15, 2009 relates to an incident on a noon when a bird's flag collided with the engine of a US Airways flight 1549, leaving both aircraft engines dead.  There were 155 passengers aboard the flight.  The ship's captain, Silan Burger, was told he could make a landing at one of the nearest airports, but the captain considered the situation impossible, and decided to take the ship to the Hudson River in New York.  Not only did the ship land on the icy waters of Hudson but there was no casualty in the process.  All 155 passengers and all crew members were safely evacuated.  The incident was hampered and the captain was highly praised.  Captain Sullen Burger, "Sully," has gained the status of a public hero nationwide.  The National Transport and Safety Board, however, orders an inquiry into the incident and its details to be more satisfied.  They want to see if the decision to land in the river was really the last resort, or the pilot's mistake or misunderstanding caused the situation.  Experts use aviation, computer data and flight simulation ... all the resources are used to determine this.  The captain is asked a lot of questions ... it seems that the "hero" cannot be considered a disqualification.  Investigations continue with great enthusiasm, after passing through a series of patience trials that eventually lead to a flight of 35 seconds, indicating that both the computer simulator's idyllic and stress-free environments are proposed.  It was not possible to reach either of the airports.  Then those investigations are terminated.  The main purpose of the investigation was simply that not every landing on Hudson could be so fortunate ... Choosing the "safe" route instead of luck would have to be the right decision.

 Zaki Kayani

سلی sully

سلی (فلم)

15 جنوری 2009 کی یخ بستہ دوپہر کو ہونے والے ایک واقعہ سے متعلق ہے جب یو ایس ائیر ویز کی پرواز 1549 کے انجن سے پرندوں کا ایک جھنڈ ٹکرا جاتا ہے ا جس کے نتیجہ میں جہاز کے دونوں انجن کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پرواز پر عملے کے علاوہ 155 مسافر سوار تھے۔ جہاز کے کپتان سلن برگر سے کہا گیا کہ وہ نزدیک ترین دو میں سے کسی ایک ائرپورٹ پر لینڈنگ کر سکتا ہے لیکن کپتان نے جہاز کی صورت حال دیکھتے ہوئے اسے ناممکن خیال کیا اور جہاز کو نیویارک کے دریائے ہڈسن میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز نہ صرف بخیریت ہڈسن کے برفیلے پانیوں پر اتر گیا بلکہ اس عمل میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ سب 155 مسافر اور عملے کے تمام افراد بحفاظت وہاں سے نکال لیے گئے۔ ہر طرف اس واقعہ کی دھوم مچ گئی اور کپتان کی بے انتہا تحسین کی گئی۔ کپتان سلن برگر، "سلی"، کو ایک عوامی ہیرو کے ملک گیر حیثیت حاصل ہو گئی۔ تاہم نیشنل ٹرانسپورٹ و سیفٹی بورڈ اس واقعہ اور اس کی جزئیات کے متعلق مزید اطمینان کے لیے انکوائری کا حکم دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دریا میں اترنے کا فیصلہ واقعی آخری حل ہی تھا یا پائلٹ کی غلطی یا غلط اندازے سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ ماہرین ہوا بازی، کمپیوٹر ڈیٹا اور فلائٹ سیمولیشن ... غرض تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے۔ کپتان سے تیکھے سوال پوچھے جاتے ہیں ... کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ "ہیرو" کہیں نااہلی کا مرتکب ہی قرار نہ پا جائے۔ تحقیقات پورے شد ومد سے جاری رہتی ہیں، بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر پرواز کے ریکارڈ میں 35 سیکنڈ کا ایک ایسا وقفہ سامنے آتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کمپیوٹر سیمولیٹر کی آئیڈیل اور دباؤ سے پاک ماحول میں بھی دونوں مجوزہ ائرپورٹس میں سے کسی ایک پر بھی پہنچنا ممکن نہ تھا۔ تب وہ تحقیقات ختم کی جاتی ہیں۔ تحقیقات کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ ہڈسن پر ہر لینڈنگ تو اتنی خوش قسمت نہیں ہو سکتی۔... خوش قسمتی کی بجائے "محفوظ" کا راستہ چننا دراصل درست فیصلہ ہونا چاہیے۔۔

زکی کیانی

دو عظیم انسان

والش،پیکارڈ 
چیلنجر ڈیپ مہم (1960ء)

«« سب سے بڑے بحر کے فرش کو چھونے والے دو عظیم شخص »»

23 جنوری1960ء کی وہ ایک تاریخی صبح تھی جب 08:23پر ہزاروں لیٹر پٹرول بھرنے کے بعد ایک بہت بڑی آبدوز ٹری ئسٹ میں سوار ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ نے بحرالکاہل میں ماریانا ٹرنچ سے پانیوں کی گہرائی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ چند سو فٹ کے بعد اُن دونوں کو سورج کی روشنی مدھم ہوتی نظر آنے لگی۔ سائے کالے ہونے لگ پڑے۔ پانی کے دبائو کو چیرتی ہوئی عمق پیما آبدوز نے ایک شور کے ساتھ چیلنجر ڈیپ کے سفر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔آبدوز کے جس کیبن میں وہ دونوں بیٹھے تھے اُس کا سائز ایک بڑی گھریلو فریج کے برابر تھا ۔جسکا درجہ حرارت بھی اُس کے برابر۔ لہٰذا وہ یہ جانتے تھے کہ 9گھنٹے اِس میں گزرنے ہیں۔ آج تک12 افراد نے چاند پر قدم رکھا ہے ، ہزاروں نے اُونچائی کا پہاڑ مائونٹ ایورسٹ سر کیا لیکن گزشتہ 54سالوں میں صرف 3افراد ایسے ہیں جنہوں نے بحر(سمندر) کے فرش کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اُن میں سے والش اور پیکارڈ نامی اشخاص نے یہ حیرت انگیز کامیابی 23 جنوری 1960ء میں حاصل کی اور ٹائی ٹینک فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 52سال بعد 26مارچ 2012ء میں ۔ ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ: انسانی آنکھ کی خواہش تھی کہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی سمندری گہرائی اتنی ہی ہے جتنی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسرا اس گہرائی میں پہنچ کر سمندر کی تہہ کا کیا نظارہ ہو گا۔امریکہ کا’’پروجیکٹ نیکٹن‘‘ اس ہی خواہش کو پورا کرنے کی پیش رفت تھی جس کیلئے 28سالہ لیفٹیننٹ ڈان والش کو منتخب کیا گیا۔ڈان والش نے جب ٹری ئسٹ کوسان ڈیاگو شہر میں دیکھا تھا تو وہ مختلف حصوں میں اسطرح پڑی ہوئی تھی جیسے کسی بوائلر فیکٹری میں دھماکہ ہونے کے بعد اشیاء بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی ہوں۔لیکن پھرجب اُسکو منصوبے کے مطابق مزید حفاظتی اقدامات میں اضافے کے مطابق تیار کر لیا گیا تو37سالہ جیکوئس پیکارڈ کو بھی معاون افسر کے طور پر مہم کیلئے منتخب کر لیاگیا کیونکہ وہ ٹری ئسٹ کے بارے میں جانتے تھے۔ واش نے پیکارڈ سے پہلی ملاقات میں کہا کہ وہ جہاں راں (میرینر)ہے تو جواب میں پیکارڈ نے کہا کہ وہ ملاح ہے اور بعدازاں سفر کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔ چیلنجر ڈیب کی سطح پر: 1000 فٹ،2000فٹ۔ پھر 2400 فٹ پر والش اور پیکارڈ نے جس چھوٹے سے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے کی روشنی ہلکی کردی تاکہ باہر کے نظارے کو واضح دیکھنے کی کوشش کی جاسکے۔13,000فٹ پر وہ ابیسل زون(پاتال یا کھائی۔ہندو دیو مالا کے مطابق زمین کے 7طبقوں میں سے نیچے کا طبق ہے۔جہاں ناگ رہتے ہیں) میں داخل ہوگئے جہاں اتنا گہرا اندھیرا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ وقت تھم گیا ہے۔31,000 فٹ نیچے پہنچے توٹری ئسٹ کی آواز تہہ سے ٹکرا کر گونج پیدا کرنے لگی۔32,400فٹ پر آبدوز کے 7انچ موٹے و مضبوط شیشے پرایک زور دار آواز کے ساتھ دراڑ پڑ ی تو اُس دھماکے نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔جس سے ایک خوفناک صورت ِحال پیدا ہوتی محسوس ہوئی ۔لیکن اگلے چند منٹوں میں معلوم ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔لہٰذا سفر جاری رکھا جائے منزل قریب تھی۔حوصلہ کیا اور ٹری ئسٹ کو مزید آگے بڑھایا تو تاریک ہیڈل زون (انتہائی گہری کھائی ) میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد آخر کار 35,800فٹ پر ڈان والش نے زمینی سطح پر رابطہ کر کے اطلاع دی کہ یہ ٹری ئسٹ ہے...ہم چیلنجر ڈیپ کی تہہ پر ہیں...اوور۔یعنی یہ فاصلہ زمین سے کم وبیش 7میل سمندری گہرائی میں جانے کا تھا جس کو بلیک ہول سے گزرنا بھی کہا جاتا ہے اور اُن سے پہلے آج تک اتنی گہرائی میں کوئی نہیں گیا تھا۔ ٹری ئسٹ کی انتہائی تیز روشنی میں سطح کا پانی خوبصورت اور چمکدارنظر آرہا تھا ۔ ایسا جیسے ایک دودھ کا پیالہ۔ پیکارڈ نے ایک فلیٹ فش(چپٹی مچھلی) کو دیکھا ۔انہوں نے عمق پیماآبدوز کو محتاط انداز میں چیلنجرڈیپ کے فرش پر ٹھہرایا۔پھر دونوں نے اپنی اس کامیابی پر ہاتھ ملایا اورایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں ۔ اس ہی دوران تہہ کی تلچھٹ کے بادل بھی بننا شروع ہو چکے تھے جو کم ہو نے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے تھے جسکی وجہ باہر کی دُنیا دیکھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔  والش اور پیکارڈ نے ان حالات میں فیصلہ کیا کہ رات ہونے سے پہلے واپس سمندر کی اوپر کی سطح پر پہنچا جائے۔ وہ ساڑھے4گھنٹے میں چیلنجر ڈیپ کی سطح پر پہنچے۔35,814فٹ کی گہرائی میں 20 منٹ ٹھہرے رہے اور ساڑھے 3 گھنٹے میں واپس اپنے مقام پر پہنچ گئے۔دونوں کو سخت سردی و تھکان محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ بھی سوچ رہے تھے کہ زندگی کے سب سے اہم لمحے گزر چکے ہیں ۔ کامیابی اور شہرت اُنکے قدم چُوم چکی ہے۔

تحریر : زکی کیانی

عقاب

عقاب eagle
عقاب کی بہت سی اقسام ہے ضروری نہیں سب میں مماثلت ہو یہ امریکہ ، یورپ ، ایشیا میں پایا جاتا ہے 60 سے زائد اقسام پائی جاتی ہے ۔

‏ ”‏بہترین حالات کے تحت سنہری عقاب (‏عقیلہ کیرساٹوس‏)‏ پونے دو میل کی بلندی سے خرگوش کی معمولی سی حرکت کو بھی دیکھ سکتا ہے،‏“‏ دی گینیز بُک آف اینیمل ریکارڈز بیان کرتی ہے۔‏ دیگر کا اندازہ ہے کہ عقاب اس سے بھی زیادہ دُور سے دیکھ سکتا ہے!‏
سنہری عقاب کی دو بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں جو سر کا بیشتر حصہ گھیرے ہوتی ہیں۔‏ بُک آف برٹش برڈز بیان کرتی ہے کہ سنہری عقاب کی آنکھیں،‏ ”‏درحقیقت کافی زیادہ بڑی ہوتی ہیں مگر وہ اُسکی پرواز کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔‏“‏

مزیدبرآں،‏ عقاب کی آنکھ میں روشنی حاصل کرنے والے خلیے ہماری نسبت پانچ گُنا زیادہ ہوتے ہیں،‏ بعض میں تو ہمارے 200000 خلیوں کے مقابلے میں فی مربع ملی‌میٹر 1000000 مخروطے ہوتے ہیں۔‏ عملاً ہر حساسہ نیورون سے جڑا ہوتا ہے۔‏ نتیجتاً عقاب کی عصب‌بصری میں جو آنکھ سے دماغ کو پیغام پہنچاتی ہے،‏ انسانوں کی نسبت دو گُنا زیادہ بافتے ہوتے ہیں۔‏ یہ مخلوق رنگ کی بھی خوب پہچان کر سکتی ہے!‏ یوں کہہ لیجئے کہ دیگر پرندوں کی طرح تمام شکاری پرندے طاقتور عدسوں سے لیس آنکھیں رکھتے ہیں جو ایک انچ کے فاصلے پر پڑی چیز سے نظر ہٹا کر فوری طور پر بہت دُور کی چیز پر نظر جما سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں اُنکی آنکھیں ہماری آنکھوں سے بہت بہتر ہیں۔‏

دن کی روشنی میں عقاب کی بصارت کئی گُنا زیادہ ہو جاتی ہے مگر رات کو اُلو اس خوبی سے استفادہ کرتے ہیں۔‏ رات کو اِن شکاری پرندوں کی آنکھوں میں روشنی کے حساس آلے اور بڑے بڑے عدسے نصب ہوتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ وہ رات کو ہماری نسبت دس گُنا زیادہ دیکھ سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ مکمل تاریکی کے دوران اُلو اپنے شکار کو تلاش کرنے کیلئے صرف اپنی سننے کی قوت پر انحصار کرتے ہیں۔‏

عقابوں کے گھونسلے عموماً بڑے درختوں پر یا اونچی چٹانوں پر ہوتے ہیں۔ اکثر اقسام دو انڈے دیتی ہیں۔ تاہم پہلے پیدا ہونے والے بچے عموماً دوسرے بچے کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے ہیں۔ عموماً مادہ چوزہ نر سے بڑی ہوتی ہے۔ والدین چھوٹے بچے کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔

زکی کیانی

میرے الفاظ

کچھ اپنے الفاظ آپکی نظر کرتا ہوں

غازی علم الدین شہید

غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قریبی مسجد سے حاصل کی اور پھر اپنے آبائی پیشےلکڑی کے کام میں کرنے لگے ۔

لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا۔
لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔ افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبد العزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ غازی عبد العزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو گارڈ دیے ۔ غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لیے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کارروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لیے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے" مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی زیر نگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی نے اس اپیل کو بھی رد کر دیا۔آپکی شہادت کے بعد آپ جسد خاکی کو ضبط کر کے نا معلوم مقام پر دفن کر دیا جس پر شدید احتجاج ہوا اور کچھ معاملات کے بعد کچھ مسلم رہنماؤں نے جسد خاکی واپس لے لیا وقت کے عینی شاہدین کے مطابق آپ دو ہفتوں بعد آپ سے خوشبو مہک رہی تھی چہرے پر جلال اور مسکراہٹ تھی
شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے جس میں تقریباً چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔ جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا" کاش! "یہ مقام مجھے نصیب ہوتا۔"اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی۔

لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔

تحریر : زکی کیانی

ocean of knowledge

Result of KSA Vs Houthis Conflicts

Result of KSA Vs Houthis Conflict The conflict between the Houthi rebels and Saudi Arabia in Yemen has been characterized by a complex web o...